۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مجتمع علماء و خطباء کی جانب سے ممبئی میں ہفتہ وحدت

حوزہ/ نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان: یقینا تبلیغ اور ہدایت کا کام سخت اور دشوار کام ہے ، اس راہ میں انبیاء علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے ۔ لیکن یہ کام جتنا دشوار ہے اتنا ہی زیادہ اس کی اہمیت بھی ہے ۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ مسجد ایرانیان ممبئی میں مجتمع علماء و خطباء ممبئی کی جانب سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ نشست ہفتہ وحدت کی مناسبت سے منعقد کی گئی تھی جس میں شہر ممبئی کے علماء و خطباء نے شرکت کی اور نمائندہ ولی فقیہ جناب حجۃ الاسلام والمسلمین آقای مہدی مہدوی پور نے اس جلسہ سے خطاب کیا ۔ اس جلسہ میں ممبئی میں موجود خانہ فرہنگ کے مدیر جناب آقای آشوری اور ایرانی قونصلر جناب آقای علیخانی نے بھی شرکت کی ۔ 

تصویری جھلکیاں: مجتمع علماء و خطباء کی جانب سے ممبئی میں ہفتہ وحدت کی مناسبت سے علماء کی نشست

حجۃ الاسلام والمسلمین جناب آقای مہدوی پور نے اپنی گفتگو کا آغاز سورہ مبارکہ آل عمران کی ۱۳۹ نمبر کی آیت "وَلا تَهِنوا وَلا تَحزَنوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ "، سوره مبارکه آل عمران آیه ۱۳۹ سے کیا جس میں خداوند عالم نے مومنین کو حکم دیا ہے کہ : '' خبردار سستی نہ کرنا ، مصائب پر محزون نہ ہونا، اگر تم صاحب ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے " 

اپنی گفتگو کے آغاز میں انہوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کا سلام علماء و خطباء کی خدمت میں پہنچایا اور یہ پیغام دیا کہ رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای حفظہ اللہ تعالی نے ہندوستانی علماء و خطباء کا شکریہ ادا کیا ہے کہ یہ لوگ تمام مشکلات کے باوجود اس سرزمین پر دین اسلام کی تبلیغ کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ 

اس کے بعد نمائندہ ولی فقیہ نے تبلیغ دین کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : یقینا تبلیغ اور ہدایت کا کام سخت اور دشوار کام ہے ، اس راہ میں انبیاء علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے ۔ لیکن یہ کام جتنا دشوار ہے اتنا ہی زیادہ اس کی اہمیت بھی ہے ۔ 

تبلیغ دین اور ہدایت کی اہمیت کے حوالے سے انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ روایت پیش کی کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مولائے کائنات کو یمن کی جانب روانہ کیا تو فرمایا : اے علی دیکھو جب تک اسلام کی دعوت نہ دیدینا کسی سے جنگ نہ کرنا ، خدا کی قسم ، اگر تمہارے ہاتھوں سے اللہ ایک آدمی کی بھی ہدایت کر دے تو تمہارے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج اپنی روشنی ڈالتا ہے ۔ بحارالانوار، جلد ۱۰۱ ، صفحہ ۳۶۴

جناب آقای مہدوی پور نے فرمایا کہ آپکی یہ دینی فعالیت اور آپ کا یہ لباس مقدس ہے اور اس پر ہمیشہ امام زمانہ عج کی عنایت اور توجہ رہتی ہے  لہذا آپ لوگ اپنی قدر و منزلت کو پہچانیں ۔ 

اسی کےساتھ عالم ربانی آقای مہدوی پور نے ہندوستان میں تبلیغی میدان کی کچھ خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام تر دشواریوں کے ساتھ اس سرزمین پر تبلیغ کے کچھ سنہرے مواقع موجود ہیں جنہیں ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، تبلیغ کے یہ مواقع انبیاء علیہم السلام کو نہیں فراہم تھے ۔ لوگ انبیاء علیہم السلام کی باتیں سننے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن یہاں پر ایسے مواقع ہیں ۔ 

۱۔ مجالس امام حسین علیہ السلام ان میں ایک بہترین فرصت اور موقع ہے جہاں ہم دین کی تبلیغ کر سکتے ہیں ، ان مجالس میں لوگ بنا بلائے آتے ہیں اور آپ کی باتیں سننے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ یہ بہت ہی بہترین فرصت ہے ۔ ایران میں پہلوی حکومت کے زمانے میں مجالس پر پابندی لگا دی گئی تھی ، ایک شیعہ اکثریت والا ملک ہونے کے باوجود لوگ چھپ کر مجلسیں کیا کرتے تھے ، لیکن یہاں ایسی کوئی محدودیت نہیں ہے اور ان مجالس میں شرکت کرنے والے صرف شیعہ ہی نہیں ہیں بلکہ ہر دین و مسلک کے ماننے والے ان مجالس میں شریک ہوتے ہیں ۔ 
یہ امام حسین علیہ السلام کے ذات کی کشش ہے کہ ہر مسلک وملت کے لوگ ان کے نام پر آرہے ہیں ، آپ اربعین کے اجتماع کو دیکھیں کس طرح لوگ عشق و محبت کے ساتھ وہاں حاضری دے رہے ہیں ۔ یہ نبی کے قول کی تصدیق ہے کہ حسین کا غم لوگوں کے دلوں سے کم نہ ہوگا۔
 
۲۔ انقلاب اسلامی ایران بھی تبلیغ دین کی راہ میں آسانی کا ایک سبب ہے جس کے ذریعہ ہم شیعہ آئیڈیولوژی دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ۔ زمانہ غیبت میں پہلی بار دنیا میں علوی پرچم لہرایا اور شیعہ عقائد کی بنیاد پر ایک حکومت قائم ہوئی ہے جو ایک فقیہ جامع الشرائط کے زیر نظر قائم و دائم ہے ۔ اس حکومت نے ۴۲ سال دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے سامنے اپنا قد علم کر کے شیعیت کو نئی پہچان دی ہے کہ ہم کسی کے سامنے جھکنے والے نہیں ہیں ، یہ حکومت شیعوں کی آبرو ہے ۔ 

۳۔ تیسری چیز جس نے تبلیغ کی راہ میں آسانی فراہم کی ہے وہ سائبر اسپیس میں تبلیغ دین کے امکانات کا فراہم ہونا ہے ، جس نے ہمارے زمانے میں کافی آسانیاں فراہم کر دی ہیں جو گزشتہ زمانے کے علماء جیسے میر حامد حسین اور غفرانمآب اور ان کے فرزند اور دیگر ۴۰ ایسے علماء جو اس سرزمین سے تعلق رکھتے تھے اور صاحب رسالہ عملیہ تھے ، ان کے لئے اس طرح کا امکان فراہم نہیں تھا ۔ شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری ۔رہ۔ اور شہید ثالث محمد کامل دہلوی۔رہ۔ اسی مکتب کی تبلیغ و ترویج میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔

آج سرزمین ہندوستان پر ۳۰۰۰ دینی مکاتب ، ۲۰۰ اسکول ، سیکڑوں کلچرل انجمنیں، یوٹیوب اور فیسبک پر سیکڑوں صفحات ہیں جو مختلف علاقوں میں تبلیغ دین میں سرگرم ہیں ، خاص کر یہی مجتمع علماء و خطباء ممبئی جو شہر ممبئی میں تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔ 
حجۃ الاسلام والمسلمین جناب مہدی مہدوی پور نے فرمایا: میری آپ لوگوں سے یہی گزارش ہے کہ آپ جوانوں کے جذبات و احساسات کی قدر کریں ، یہاں مبلغ کا کافی احترام ہے ، لوگ قبلہ اورکعبہ کہہ کر بلاتے ہیں ، آپ انہیں دین کی طرف راغب کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جوان دین سے دور ہو جائیں ۔ اپنے اخلاق و کردار سے انہیں دین کی طرف بلائیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جتنا اپنے اخلاق و کردار سے لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی ہے اتنا لوگ حکمت و دلائل کی بنیاد پر دین میں داخل نہیں ہوئے ہیں ۔

۴۔ چوتھا نکتہ ہندوستان کی سیاسی فضا سے متعلق ہے کہ یہاں پر سیاسی اعتبار سے کافی آزادی پائی جاتی ہے جس سے تبلیغ دین کا کام کافی حد تک آسان ہو گیا ہے ۔ 
ایک اور خوبی اس سرزمین کے مبلغین کی یہ ہے کہ ہندوستان کے مبلغین ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں لہذا دین کے پیغام کی ترویج کے بہتر مواقع ان کے لئے فراہم ہیں ۔
آخر میں انھوں افغانستان کے سیاسی حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت افغانستان بڑے ہی سخت دور سے گزر رہا ہے ۔گزشتہ دو ہفتوں میں دو مسجد میں عین نماز کی حالت میں بلاسٹ ہوئے ۔ طالبان وہ تنظیم ہے جسے پاکستانی حکومت اور آئی ایس آئی جیسی تنظیم نے ۱۹۹۳ میں بنایا تھا ، یہ تنظیم ان افغان مہاجرین کے ذریعہ بنائی گئی تھی جو اس وقت پاکستان کی سرزمین پر پناہ گزین تھے ، اس کا مقصد افغانستان میں اپنی جاگیرداری قائم کرنا تھا ، یہ تنظیم پوری دنیا میں اپنے متشدد افکار اور سخت رویہ کی بنا پر پہچانی جاتی ہے ۔ انھوں نے اپنے ان دقیانوسی افکار اور متحجرانہ رویے کی بنیاد پر پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کر کے رکھا ہے ۔ انھوں ۱۹۹۶ سے سال ۲۰۰۰ تک افغانستان میں حکومت قائم کی اور وہاں پر قتل و غارت کرتے رہے ۔ پھر ۱۱ ستمبر کے حملے کا بہانہ بنا کر امریکا افغانستان میں داخل ہوا تو یہ حکومت سے برکنار کر دیئے گئے اور پھر امریکا اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا لیکن اس مقصد میں اسے کامیابی نہیں ملی تو ۲۰۲۰ میں بیس سال کے بعد ایسے حالات میں جب طالبان کا کنٹرول افغانستان پر بڑھ چکا تھا امریکا ، افغانستان چھوڑ کر چلا گیا اور پھر افغانستان کو طالبان کے حوالے کر دیا ۔ 
ان بیس سالوں میں ۲۵۰ ہزار سے زاید لوگ افغانستان میں مارے گئے ۔ اس معاملے میں ہندوستان نے بھی امریکا سے یہ کہا کہا تھا کہ وہ ایسے حالات میں افغانستان سے انخلاء کی جلدی نہ کرے لیکن امریکا نے ہندوستان کے ساتھ بھی دھوکہ کیا اور وہ چلا گیا اس طرح پورا علاقہ نا امن ہو کر رہ گیا ہے ۔ 
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر چہ طالبان بظاہر ایک نرم رویہ کے ساتھ اس بار ظاہر ہوئے ہیں لیکن ان کے گزشتہ افکار و رویے کو دیکھتے ہوئے ان سے قطعا یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ اسی نرم رویے کے ساتھ حکومت کریں گے ۔ 

جلسہ کے آخر میں ایرانی قونصلر جناب آقای علیخانی نے حجت الاسلام والمسلمین جناب آقای مہدوی پور کا شکریہ ادا کیا اور پھر مجتمع علماء و خطباء کی جانب سے حجۃ الاسلام جناب حمزہ صاحب نے شرکاء اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .